The Complete Story of Hazrat Adam and Hazrat Hawa | حضرت آدم اور حضرت حوا کا مکمل واقعہ
زوجه حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةَ وَالسَّلَام
اس پوسٹ میں ملاحظہ کیجئے
- حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کا نکاح آپ کا مہر کیا تھا؟
- حضرت حوا رَحْمَةُ اللہ عَلَيْهَا کی پیدائش کیسے ہوئی؟
- حضرت حوا رَحمَةُ اللَّهِ عَلَيْهَا كا جنت میں قیام ، قیام جنت کی مدت
- جنت سے زمین پر تشریف لانے کا واقعہ ، زمین پر کس جگہ اتارا گیا؟
- حضرت آدم عَلَيْهِ السَّلام اور بی بی حوا رحمۃ اللہ عَلَيْهَا کی ملاقات کہاں ہوئی؟
- كَعْبَةُ الله شریف کی پہلی تعمیر
حضرت حوَا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کی پیدائش کیسے ھوئی؟
جب تمام فرشتوں نے اللہ پاک کے حکم پر عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام کو سجدہ کیا تو شیطان نے تکبر کیا اور حضرت آدم عَلَيْهِ الصلوة و السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اس طرح یہ مردود ہو گیا۔ پھر حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو جنت میں جانے کا حکم ہوا۔ ابھی حضرت حوا رحمتہ اللہ علیا کی تخلیق نہیں ہوئی تھی۔ حضرت آدم علیہ الصلوة والسلام نے کسی چیز سے اُنسیت اور راحت محسوس نہ فرمائی کیونکہ اس وقت تک کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آپ کی طرح انسان ہوتی تو اللہ پاک نے آپ پر نیند طاری فرمائی پھر آپ کی بائیں جانب کی چھوٹی پسلی جسم سے الگ کی گئی اور اس سے حضرت حوا رحمۃ اللہ علیہا کو تخلیق کیا گیا۔ خواب سے بیدار ہو کر حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام نے اپنے پاس حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِ علیہا کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو ان سے فرمایا: تم کون ہو ؟ عرض کیا: عورت۔ فرمایا: کس لئے پیدا کی گئی ہو ؟ کہا: اس لئے کہ آپ مجھ سے انسیت اور راحت محسوس فرمائیں۔
جنت میں قیام اور ایک درخت سے ممانعت
اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ الصلوة السلام اور حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کو جنت میں رہنے کا حکم فرمایا اور انہیں جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھانے کی اجازت عطا فرمائی لیکن چونکہ حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوة السلام کی خلافت گاہ زمین تھی اور یہاں آکر آپ علیہ الصلواۃ السلام اور آپ کی اولاد پر احکام خداوندی جاری ہونے والے تھے اور انہیں دنیا کی بعض چیزوں سے روکا جانے والا تھا لہذا انہیں اس پابندی کا عادی بنانے کے لئے جنت میں بھی بعض چیزوں سے روک دیا گیا اور فرما دیا گیا کہ اے آدم و حوا عليهما الصلوة والسلام تم جنت میں جو چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا یعنی نہ اسے کھانا نہ ادھر جانا۔
جنّت میں کتنا عرصه قيام كيا
حضرت سید نا عبد الله بن عباس رضي الله عنها سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت آدم عليه الصلوة و السلام کو روز جمعہ کی آخری ساعت میں تخلیق فرما کر جنت میں ٹھہرایا اور اسی ساعت کے آخر میں جنت سے زمین پر اُتارا -- علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری رحمة الله علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ ساعت اُخروی دنوں کے اعتبار سے تھی جس کا ایک دن دُنیا کے ایک ہزار 1000 سال کے برابر ہوتا ہے، اس اعتبار سے حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام نے جنت میں دُنیا کے 43 سال چار ماہ کی مقدار قیام فرمایا۔
جنت سے زمین پرتشریف لانے کاواقعه
حضرت سیدنا آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَ السَّلام اور حضرت سید تنا حوا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا جنت میں رہا کرتے تھے دنیا میں کیسے تشریف لائے، اس کا ظاہری سبب یہ ہوا که شیطان جو حضرت آدم عليه الصلوة و السلام کو سجدہ نہ کر کے ملعون ومر دُور ہو چکا تھا، اب اس کا دل ان کے خلاف حسد سے بھرا ہوا تھا، وہ ہر وقت انہیں نقصان پہنچانے کی تاک میں رہتا، بالآخر ایک دفعہ موقع پاکر اس نے انہیں وسوسہ ڈالا اور مکر و فریب سے کام لیتے ہوئے اس درخت کا پھل کھانے پر ابھارا جس سے اللہ پاک نے منع فرمایا تھا۔ قرآنِ کریم میں ہے۔
یعنی کیا میں آپ کو ایک ایسے درخت کے بارے میں بتا دوں جسے کھا کر کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے اور ایسی بادشاہت کے متعلق بتا دوں جو کبھی فنا نہ ہو گی اور اس میں زوال نہ آئے گا۔
شیطان کا جھوٹی قسم کھانا
حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام اور حضرت حوارَحْمَةُ الله عَلَيْهَا کو اپنے اس مکر و فریب کا یقین دلانے اور خود کو ان کا خیر خواہ ثابت کرنے کے لئے یہ ملعون اس حد تک گیا کہ اللہ رَبُّ الْعِزَّتِ کی جھوٹی قسم تک کھالی۔ شیطان سے پہلے کسی نے اللہ پاک کے نام کی جھوٹی قسم نہ کھائی تھی۔ نیز حضرت آدم اورحضرت حوا کے دل خدائے ذوالجلال کی عظمت و بڑائی سے بھرے ہوئے تھے جس کی وجہ سے ان کے تصور میں بھی نہ تھا کہ کوئی اللہ پاک کی قسم کھا کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے، چنانچہ مفسرین کرام رَحِمَهُمُ الله السلام فرماتے ہیں: جب شیطان مردود نے اللہ رَبُّ الْعِزَّت کی قسم کھائی تو انہوں نے اس کی بات کا اعتبار کر لیا، انہوں نے یہ سمجھا کہ کوئی بھی اللہ پاک کی جھوٹی قسم نہیں کھا سکتا۔ اور ممانعت کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کے لئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا - یا وہ مُمانعت ایک خاص درخت کی تھی اسی جنس کے دوسرے درخت اس ممانعت میں داخل نہیں۔ اس طرح ان سے ممانعت کی وجہ اور نوعیت سمجھنے میں خطا ہو گئی۔ یہ ان کی اجتہادی خطا تھی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوا کرتی۔ واضح رہے کہ جنت قرب الہی کا مقام ہے اور حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی اس مقام قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بنے یا دائمی بننے سے یہ مقام حاصل ہو سکتا تھا لہذا آپ نے شیطان کی قسم کا اعتبار کر لیا اور ممانعت کو محض تنزیہی سمجھتے ہوئے یا خاص درخت کی ممانعت سمجھتے ہوئے اسی جنس کے دوسرے درخت سے کھا لیا۔ اس پر اللہ پاک نے ان سے فرمایا۔
ترجمہ کنزالایمان: کیا میں نے تمہیں اس پیٹر درخت سے منع نہ کیا اور نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
یہ سُن کر انہوں نے کوئی بہانہ نہیں بنایا، کسی قسم کی حجت بازی نہیں کی بلکہ نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ عرض گزار ہوئے۔
ترجمة كنزالایمان: اے رہے ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیا تو اگر توں ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے۔
یعنی میرے مولی ! واقعی توں نے ہم کو سب کچھ بتا دیا تھا، ہم سے غلطی ہو گئی ، اپنا حق ہم نے خود مار لیا، اب اگر تو ہماری پردہ پوشی نہ کرے اور ہم پر رحمت کر کے معافی نہ دے تو ہم بالکل خسارہ و نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے
الله رَبِّ الْعَلَمِین نے ان کی دُعا رو نہیں فرمائی بلکہ جنت سے زمین پر اتر جانے کا حکم فرمایا کیونکہ حضرت آدم علیہ الصلوة السلام کی تخلیق کا اصل مقصد تو انہیں زمین میں خلیفہ بنانا تھا جیسا کہ اللہ پاک نے آپ کی تخلیق سے پہلے ہی فرشتوں کے سامنے بیان فرما دیا تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ اولاد آدم نے آپس میں عداوت ودشمنی بھی کرنا تھی اور جنت جیسی مقدس جگہ ان چیزوں کے لائق نہیں لہذا مقصد تخلیق آدم کی تکمیل کے لئے اور اس کے مابعد رونما ہونے والے واقعات کے لئے حضرت آدم علیہ الصلوة و السلام کو زمین پر اُتارا گیا۔
زمین پر کس جگه اُتارا گیا؟
زمین پر حضرت سیّد نا آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلام کو سراندیپ سری لنکا میں نؤد نامی پہاڑ پر اور حضرت سیدتنا حوا رَحمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کو جدہ میں اُتارا گیا۔ کہا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام نے زمین پر آنے کے بعد 300 برس تک حیا سے آسمان کی طرف سر نہ اٹھایا۔ حضرت ابن عباس رضی الله عنها فرماتے ہیں کہ جنتی نعمتوں کے فوت ہونے پر حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَام اور حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِہ عَلَيْهَا 200 برس تک روتے رہے اور 40 روز تک انہوں نے کچھ کھایا نہ پیا۔
توبه کیسے قبول ھوئی؟
زمین پر تشریف لانے کے بعد ایک عرصے تک یہ حضرات اپنی لغزش کی معافی مانگتے رہے پھر اللہ پاک نے حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوة و السلام کو چند کلمات سکھائے۔ جب ان کلمات کے ساتھ انہوں نے توبہ اور معافی کی درخواست کی تو قبول ہوئی۔
زمین پر حضرت آدم اور حضرت حوا کی ملاقات
زمین پر تشریف لانے کے بعد نو ذوالحجۃ الحرام کو عرفات کے مقام پر حضرت آدم عَلَيْهِ الصلوة والسلام اور حضرت حوا کی ملاقات ہوئی، اس کا بیان کرتے ہوئے مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں- ضحاک کا قول ہے کہ حضرت آدم وحوا جُدائی کے بعد نو ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر جمع ہوئے اور دونوں میں تعارف ہوا اس لئے اس دن کا نام عرفہ اور مقام کا نام عرفات ہوا۔ یہ مقام مسجد الحرام شریف سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہی وہ مقدس جگہ ہے جہاں ہر سال نو ذوالحجۃ الحرام کو دُنیا کے کونے کونے سے آئے ہوئے تمام حاجی جمع ہوتے ہیں۔
كعبةُ الله شریف کی تعمیر
بعض روایات کے مُطابق کعْبَةُ الله شریف کی سب سے پہلی تعمیر حضرت سیدنا آدم صَفِيُّ اللہ علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمائی جس میں اثم البشر حضرت سیدنا حوا رَحمةُ اللهِ عَلَيْهَا نے بھی آپ کا ساتھ دیا۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ پاک نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا کہ میراگھر بنائیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آکر جگہ کی نشان دہی کر دی۔ پھر حضرت آدم علیہ الصلواة السلام اس جگہ سے مٹی کھودنے لگے اور حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا اسے باہر نکال دیتیں۔
نام کنیت اور اولاد
آپ رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کا نام مُبَارَک حَوَّا ہے، اس نام کی وجہ یہ ہے کہ یہ لفظ حی سے بنا ہے اور حی کے معنی ہیں زندہ چونکہ حضرت حوا رَحْمَةُ الله عَلَيْهَا کو زندہ انسان حضرت آدم عليه الصلوة و السلام کی پسلی کی ہڈی سے پیدا کیا گیا اس لئے آپ کا نام حوا ہوا۔ اس کے علاوہ ایک اور وجہ بیان کی گئی ہے چنانچہ حضرت سیدنا عبدُ اللَّهِ بِنْ عَبَّاس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ آپ رَحْمَةُ الله عَلَيْهَا کا نام حوا اس لئے رکھا گیا کیونکہ آپ ہر حق زندہ آدمی کی والدہ ماجدہ ہیں۔ آپ رحمة الله علیها کی کنیت اُم البشر انسانوں کی ماں ہے۔
تذكرة أولاد
حضرت سیدنا آدم علیہ الصلوة و السلام اور حضرت سیدتنا حوا رحمةُ اللهِ عَلَيْهَا کے زمین پر آمد کے 100 یا 120 سال بعد ان کے ہاں اولاد کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر حمل میں جڑواں بچے پیدا ہوتے۔ اس طرح 20 مرتبہ کے حمل سے 40 بچے پیدا ہوئے- جبکہ حضرت سید نا شیث عليه الصلوة و السلام تنہا پیدا ہوئے- ان کے چہرہ مبارک پر نبی آخر الزماں، رحمت عالمیاں صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ وَسلم کا نور چمکتا تھا۔ جب آپ کی پیدائش ہوئی تو فرشتے حضرت آدم علیہ الصلوة و السلام کو مبارک باد دینے کے لئے حاضر ہوئے۔
اولاد میں طریقہ نکاح
چونکہ حضرت سید نا آدم صفی الله عَلى نَبِيِّنَا وَ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَام اور حضرت سیّدتُنا حوا رحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا سب سے پہلے انسان تھے، ان سے پہلے کوئی انسان نہ تھا کہ جس سے ان کی اولاد کا نکاح ہو سکتا جبکہ نسل انسانی کی بقا کے لئے یہ ضروری بھی تھا چنانچہ ان کی شریعت میں یہ جائز تھا کہ ایک حمل سے پیدا ہونے والی اولاد کا نکاح دوسرے حمل سے پیدا ہونے والی اولاد کے ساتھ کر دیا جائے گویا اس حکم میں یہ غیر محرم تھے۔
نسل در نسل اولاد کی تعداد
حضرت آدم عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَ السَّلام اور حضرت حوا رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْهَا کے دورِ حیات میں ہی ان کی اولاد نسل در نسل چلتی ہوئی چالیس ہزار اور ایک قول کے مطابق چار لاکھ تک تھی۔
سفر آخرت
طویل ترین رفاقت کے بعد حضرت سیدنا آدم صفِيُّ اللَّهِ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَ السَّلام نے دنیا سے پردہ ظاہری فرمایا۔ بوقت وفات آپ کی عمر مبارک ایک ہزار برس تھی۔ فرشتوں نے آپ علیہ الصلواۃ السلام کو غسل دیا، خوشبو لگائی، کفن پہنایا، آپ علیہ الصلوة و السلام کی نماز جنازہ پڑھی- قبر بنائی اور پھر تدفین بھی کی۔ بعد میں آپ علیہ الصلوة و السلام کی اولاد سے فرمایا- اے أَوْلادِ آدم فوت شدگان کی تجہیز و تکفین کے سلسلے میں یہ تمہارا طریقہ ہے- اسی طرح کیا کرو
0 Comments