It Is Necessary To Observe Qadha Fasting Or One Can Give Fidya Instead Of Them
پچاس سال سے زیادہ عمر ہر تو پچھلے سالوں کے قضا روزوں کا کیا حکم ہے
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ اس وقت والد صاحب کی عمر پچاس سال سے زیادہ ہے لیکن فی الحال روزہ رکھنے کی صلاحیت ہے اور روزہ رکھ بھی رہے ہیں۔ ہمارے والد صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں جان بوجھ کر بہت سے روزے قضا کر دیے ہیں، اب معلوم یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ان قضا روزوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہے ؟ قضا روزے ہی رکھنا ضروری ہے یا ان کی جگہ فدیہ بھی دے سکتے ہیں ؟ اگر فدیہ دینے کی اجازت ہے تو ایک روزے کا کتنا فدیہ ہے؟
جواب
بسم الله الرحمن الرحيم
بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب
پوچھی گئی صورت میں آپ کے والد صاحب نے اپنی زندگی میں جتنے روزے جان بوجھ کر ترک کیے ہیں ، ان روزوں کو قضا کرنا ان پر فرض ہے۔ لگا تار ضروری نہیں، چھوڑ چھوڑ کر بھی رکھ سکتے ہیں ۔ یونہی سردیوں میں رکھنا آسان ہوتے ہیں، اس موسم میں رکھ لیے جائیں ۔ الغرض جتنا جلدی ہو سکے روزے قضا ہی کرنے ہوں گے ، فدیہ یا کفارہ دینا کافی نہیں ہے۔ ساتھ میں روزہ چھوڑنے کے گناہ سے تو بہ کرنا بھی لازم ہے۔ یادر ہے کہ فدیے کا حکم صرف شیخ فانی کے لیے ہے ، ہر ایک کے لیے نہیں ہے۔ شیخ فانی سے مراد وہ شخص ہے، جو بڑھاپے کے سبب اتنا کمزور ہو چکا ہو کہ اس میں حقیقتا روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو۔ نہ سردی میں نہ گرمی میں ، نہ لگاتار اور نہ متفرق طور پر اور آئندہ زمانے میں بھی ضعف بڑھنے کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت ہونے کی امید نہ ہو۔
سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں : " بعض جاہلوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ روزہ کا فدیہ ہر شخص کے لیے جائز ہے ، جبکہ روزے میں اسے کچھ تکلیف ہو، ایسا ہر گز نہیں، فدیہ صرف شیخ فانی کے لیے رکھا ہے جو بہ سبب پیرانہ سالی (یعنی بڑھاپے کی وجہ سے ) حقیقتا روزہ کی قدرت نہ رکھتا ہو، نہ آئندہ طاقت کی امید کہ عمر جتنی بڑھے گی ضعف بڑھے گا اس کے لیے فدیہ کا حکم ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمتہ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں: ”کفارہ اس وقت ہے کہ روزہ نہ گرمی میں رکھ سکیں نہ جاڑے میں نہ لگا تار نہ متفرق اور جس عذر کے سبب طاقت نہ ہو اس عذر کے جانے کی امید نہ ہو جیسے وہ بوڑھا کہ بڑھاپے نے اسے ایسا ضعیف کر دیا کہ گنڈے دار روزے متفرق کر کے جاڑے میں بھی نہیں رکھ سکتا تو بڑھاپا تو جانے کی چیز نہیں ایسے شخص کو کفارہ کا حکم ہے۔“ (فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 547، رضا فاؤنڈیشن، لاهور)
اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فتاوی امجدیہ میں فرماتے ہیں: ” جتنے روزے فوت ہو گئے ان کی قضار کھلے کفارہ کی کچھ حاجت نہیں۔ نہ فدیے کی ضرورت۔ “ اور اس کے حاشیہ میں مذکور ہے کہ جتنے روزے ذمہ ہیں جب تک اس کو قوت ہو فرض ہے کہ ان کی قضا کرے۔ قوت ہوتے ہوئے ان کا فدیہ ادا کر نا کافی نہ ہو گا۔
0 Comments